by Administrator - posted May 17, 2017 - 331 views
جناب جاوید احمد غامدی کا نام اور کام کسی تعارف کا محتاج نہیں ..... علما کے روایتی حلقوں سے الگ، انھوں نے اپنی شناخت بنائی ہے اور اہل فکر و دانش کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ وہ جرأت اور متانت کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر کے اظہار پر قادر ہیں۔ اپنی شخصیت اور اسلوب کی بدولت الیکٹرانک میڈیا پر ان کی مانگ بہت ہے، اور گھر گھر دیکھا اور سنا جا رہا ہے ..... معاشرے کو تبدیل کرنے کے حوالے سے ان کی اپنی سوچ ہے اور وہ دلائل کے ساتھ اسے پیش کرنے پر قادر ہیں۔ ان سے اختلاف کرنے والے کم نہیں ہیں، لیکن ان کا اعتراف کرنے والے بھی کم نہیں رہے۔ عزیزم صفدر سحر نے ان سے گفتگو کر کے ان کے خیالات قارئین ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، یہ کوشش نامکمل ہو سکتی ہے، لیکن ناکام نہیں ہے۔
Read moreby Administrator - posted May 17, 2017 - 353 views
جناب جاوید احمد غامدی کا نام اور کام کسی تعارف کا محتاج نہیں ..... علما کے روایتی حلقوں سے الگ، انھوں نے اپنی شناخت بنائی ہے اور اہل فکر و دانش کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ وہ جرأت اور متانت کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر کے اظہار پر قادر ہیں۔ اپنی شخصیت اور اسلوب کی بدولت الیکٹرانک میڈیا پر ان کی مانگ بہت ہے، اور گھر گھر دیکھا اور سنا جا رہا ہے ..... معاشرے کو تبدیل کرنے کے حوالے سے ان کی اپنی سوچ ہے اور وہ دلائل کے ساتھ اسے پیش کرنے پر قادر ہیں۔ ان سے اختلاف کرنے والے کم نہیں ہیں، لیکن ان کا اعتراف کرنے والے بھی کم نہیں رہے۔ عزیزم صفدر سحر نے ان سے گفتگو کر کے ان کے خیالات قارئین ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، یہ کوشش نامکمل ہو سکتی ہے، لیکن ناکام نہیں ہے۔
Read moreby Adnan Ejaz - posted March 13, 2017 - 1311 views
کم و بیش دو سال ہوئے جاوید احمد غامدی صاحب کا پیش کردہ 'اسلام اور ریاست – ایک جوابی بیانیہ' شائع ہوا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ اسلام اور دورِ حاضر کی ریاستوں کے تعلق سے پیدا ہونے والے مسائل پر گویا روایتی مذہبی بیانیے کے مقابل میں ایک متبادل مذہبی بیانیہ ہے۔ انتہا پسندی، دہشتگردی اور فرقہ وارانہ نفرت انگیزی جیسے وہ امراض جن سے یہ امّت اس وقت برسرِ پیکار ہے کی تشخیص پر مبنی یہ بیانیہ حالات کی مناسبت سے اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
Read moreby Adnan Ejaz - posted March 11, 2017 - 311 views
Applying Hameed ud Din Farahi’s Theory of Intrinsic meanings of Hebrew and Arabic Alphabets
Read moreby Adnan Ejaz - posted March 10, 2017 - 301 views
Applying Hameed ud Din Farahi’s Theory of Intrinsic meanings of Hebrew and Arabic Alphabets
Read moreby Adnan Ejaz - posted March 10, 2017 - 345 views
Applying Hameed ud Din Farahi’s Theory of Intrinsic meanings of Hebrew and Arabic Alphabets
Read moreby Adnan Ejaz - posted March 10, 2017 - 1298 views
Applying Hameed ud Din Farahi’s Theory of Intrinsic meanings of Hebrew and Arabic Alphabets
Read moreby محمد تہامی بشر علوی - posted September 22, 2016 - 676 views
1..میری نظر سے کوئی ایسی تحقیق نہیں گزری جس میں یہ ثابت کیا گیا ہو کہ خدا اپنے کلام یا کلام کے کسی حصے سے بیک وقت ایک سے زیادہ مفاہیم مراد لیا کرتا ہے. کسی کے علم میں ایسی کوئی تحقیق ہو تو آگاہ کر سکتا ہے تا استفادہ ممکن ہو پائے. 2...ایسا ممکن ہے کہ متکلم تو کلام ، ایک مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ہی کہے پر سامع کلام سے کسی اور محتمل معنی کو سمجھ لے، اب ایسا: اگر یہ جانتے بوجهتے ہو کہ خدا کی مراد تو یہ ہے پر میں یہ دوسرامعنی مراد لوں گا تو یہ سراسر کفر اور تحریف ہے. کسی مومن صادق سے اس سرکشی کی توقع تک نہیں کی جا سکتی. اگر ایسا دیناتدارانہ تدبر کے باوجود ہو جائے تو عند اللہ قابل مواخذہ نہیں، کہ انسان کے لیے بوجوہ ممکن نہیں کہ ہر موقع پر متکلم کی واحد منشاء تک پہنچ جائے. گویا کسی کلام سے "متکلم کی واحد منشاء قطعی طور پر" مراد ہونے کے باوجود یہ ممکن ہے کہ مخاطب کسی اور محتمل معنی کو مراد لے لے، ایسی صورت میں مخاطب کی طرف سے دیانت دارانہ طور پر سمجها جانے والا کوئی اور مفہوم متکلم کی "مراد" تو نہیں قرار پا سکتا تاہم متکلم کے لیے مخاطب کے جذبہ اطاعت شعاری کے تحت "قابل قبول" قرار پاتا ہے. یعنی سامع کی طرف سے کوئی اور مفہوم مراد لے لینا،( سامع کے عذر کی وجہ سے نہ کہ متکلم کی مراد ہونے کی وجہ سے )قابل مواخذہ نہیں ہوتا. اسی کو ہماری علمی روایت میں "اجتہادی اختلاف" سے تعبیر کر کے محمود قرار دیا جاتا ہے.
Read moreby عرفان شہزاد - posted September 22, 2016 - 457 views
میرے ناقص فہم کے مطابق دین کا غلبہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں ہی ممکن تھا، وہ اس لیے کہ دینی معاملات میں وہ اللہ کی طرف سے براہ راست ہدایت یافتہ تھے۔ چنانچہ دینی معاملات میں آپ کا ہر فعل اور ہر فہم عین دین تھا۔ لیکن آپ کے بعد کوئی اور شخص یا جماعت یہ دعوی نہیں کر سکتی کہ اس کا ہر فعل اور فہم عین دین ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عمراگر اپنے دور کے طویل قحط کے دوران چوری کی سزا معطل نہ کرتے اور چوروں کے ہاتھ بدستور کاٹے جا رہے ہوتے تو بظاہر یہ شرعی حکم پر عمل کم فہم لوگوں کے نزدیک عین دین پر عمل تھا لیکن مقاصد شریعت سے عدم مطابقت کی بنا پر درحقیقت یہ دین کا مطالبہ نہیں تھا اور یوں دین پر بظاہر عمل ہوتے ہوئے بھی یہ دین پر عمل نہ ہوتا۔ یعنی دین کے شرعی احکامات کے نفاذ اور اطلاق کا معاملہ بھی اجتہادی معاملہ ہے۔ اور اجتہادی معاملہ ہونے کی وجہ سے اس میں اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے۔ حضرت عمر نے اپنے عہد حکومت میں جو کچھ کیا وہ آپ کا فہمِ دین تھا جس سے اختلاف کرنے والوں نے اختلاف بھی کیا، بلکہ خود حضرت عمر نے اپنے بعض اجتہاد سے اختلاف کیا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی دینی فعل سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ منصب رسول اللہ کے بعد کسی کے لیے نہیں ہے کہ اس کے ہر دینی عمل کو عین دین سمجھا جائے۔ غرض یہ ہے کہ نبی کے بعد قطعیت سے کسی کے کسی بھی دینی عمل کو عین دین قرار دینا حتمی نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ کے سوا ہر شخص کے اجتہاد، دینی فہم اور عمل سے علمی اور عملی اختلاف ممکن ہے، اس لیے کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس نے دین کو غالب کر دیا ہے یا کر سکتا ہے یا اس کا کوئی عمل عین دین ہے۔
Read moreby عرفان شہزاد - posted September 21, 2016 - 905 views
ماہنامہ الشریعہ ،جون 2016 کی اشاعت میں حافظ محمد زبیر صاحب کا مضمون 'قران مجید کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث' شائع ہوا۔ یہ مضمون ان کے 24اکتوبر، 2015 کو المورد کے زیر انتظام ویبینار (webinar) سے خطاب کی تحریری صورت تھی۔ راقم کو اس ویبینار میں حافظ صاحب کے خطاب کو براہ راست سننے کا موقع بھی ملا تھا۔ ذیل میں ہم حافظ صاحب کے مضمون پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہیں۔
Read moreby محمد تہامی بشر علوی - posted September 20, 2016 - 598 views
عام طور پر یہ سوال داغا جاتا ہے کہ جب "متن قرآن" کی اپنے معنی پر دلالت کو قطعی کہا جا رہا ہے تو اس میں اختلاف کیوں روا رکها جا سکتا ہے.؟ اس قطعی معنی کے انکار پر تکفیر یا تضلیل لازم آتی ہے سو چاہیے کہ جو قرآن کے کسی معنی کو قطعی بتائے وہ اس کے منکر کو کافر یا گمراہ بهی ٹهہرائے. قطعیت کے مفہوم کے ساتھ بہر حال تسلیم کا لزوم اور انکار پر کفر و گمرہی کالزوم، معترضین کے دماغ میں ابهر آنے والی قدر مشترک تهی. بهلا ہو جناب مغل کا کہ دماغوں کو اس بوجھ سے آزاد کرنے کو معاون بنے.
Read moreby Asif Iftikhar - posted September 18, 2016 - 446 views
I am grateful to Mr Hashmi for his response to my humble questions. Again, it will not be useful to comment on personal remarks from his side or on his disparaging tone. However, I should like to say here that, as may be seen on the basis of comparison of his response with my post, hardly any of the actual or main questions that I raised were answered. Some were simply ignored (e.g. Q.5), and some responses to questions that I had not even really asked were given. If I have time, I might, in the interest of the possibility of meaningful discussion in future, explain these aspects of Mr Hashmi’s “rebuttal” in some detail.
Read moreby محمد تہامی بشر علوی - posted September 18, 2016 - 562 views
بعض ذی علم ناقدین کی طرف سےیہ سوال اٹھایا گیا کہ قرآن مجید میں ابتداء میں نازل ہونے والی سورہ "المدثر" میں، اتمام حجت سے قبل ہی اسلام نہ لانے والوں کو کافر قرار دیا جا چکا تها،جواس بات کی کافی دلیل ہے کہ" غیر مسلم"کو کافر قرار دینا درست ہے۔ اوریہ کہنا درست نہیں کہ کسی کو "کافر "قرار دینےکے لیے اتمام ِحجت ضروری ہے۔سادہ لفظوں میں فاضل ناقدیں کے تصور کے مطابق" کافر" کے اطلاق کے لیے " جانتے بوجھتے اسلام کا انکار" ضروری نہیں، بلکہ "مسلم گروہ " میں شامل نہ ہونا ہی "کافر" قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ اس اعتراض میں کن امور کو خلط کر دیا گیا اس کا جائزہ جواب میں لیا جاتا ہے۔
Read moreby محمد تہامی بشر علوی - posted September 18, 2016 - 1298 views
کافر: جو انسان حق کو جانتے بوجهتے ماننے سے انکار کر دے وہ خدا کے ہاں ابدی جہنم جیسی سخت ترین سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔قرآن مجید ایسے سرکشوں کا تعارف" کافرین" سے کرواتا اور ان کے انجام کی خبر ابدی جہنم کی سخت ترین سزاسے دیتا ہے۔ قرآن مجید جہاں کافر کی تعبیر اختیار کرتا ہے ساتھ ہی اس گروہ کے بد ترین انجام کو بهی لازم مانتا ہے۔قرآن مجیدمیں کافر انہی حقیقی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مسلم: اس کے بر عکس جو انسان حق کو جاننے کے بعد اسے قبول کر لیتا اوراس کے سامنے سرتسلیم خم کر جاتا ہے، اسے قرآن مجید "مومنین" سے تعبیر کرتا اور ابدی جنت کی بشارت دیتا ہے.
Read moreby Asif Iftikhar - posted September 16, 2016 - 737 views
Any comment on disparaging labels and personal attacks in this article by the learned critic, Tariq Mahmood Hashmi (طارق محمود ہاشمی) Sahib, is not likely to be useful or in good taste, but one might at least, with all due respect, very humbly ask the following questions to safeguard oneself against any immediate inclination to regard this piece as a straw man critique (attributing propositions and arguments to the critiqued author, Ghāmidī, that might not be his at all):
Read more