اپني اپني فقہ پر اصرار
سوال:
يہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اللہ کا دين اسلام ہے۔ اس کے ماننے والے سبھي مسلمان ہيں۔ يہ حقيقت معلوم ہونے کے باوجود لوگ اپني اپني فقہ کو چھوڑ کر اسلام ميں داخل ہونے کو تيار نہيں ہيں۔ اس کا پس منظر کيا ہے؟
جواب:
اسلام ميں داخل ہونے سے کيا مراد ہے۔ اگر نبي صلي اللہ عليہ وسلم زندہ ہوں اور ہمارے پاس ان سے دين سيکھنے اور جاننے کا براہ راست موقع ہو تو کسي فقہ کے ساتھ تمسک کي کوئي گنجايش نہيں ہے۔ عملاّ معاملہ يہ ہے کہ ہم قرآن و سنت کے عالم ہوں تب بھي بہت سے معاملات ميں ہميں دوسرے علما کي راۓ اور سوچ سے استفادہ کرنا پڑتا ہے۔ عام آدمي جو قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ نہيں کر سکتا وہ علما کي راۓ قبول کرنے کے سوا کوئي اور راستہ نہيں رکھتا ہے۔ اس کو يہ مشورہ دينا مہلک ہے کہ تم براہ راست قرآن و سنت سے جو کچھ سمجھ ميں آتا ہے اسے اختيار کرو اور کسي عالم کي راۓ اور تحقيق کي طرف نگاہ اٹھا کر نہ ديکھو۔ عام آدمي کو صحيح مشورہ يہي ہے کہ وہ قرآن و سنت ہي کو دين کا ماخذ جانے اور علما سے اسي راۓ اور قبول کرے جو اسے قرآن وسنت کے دلائل پر مبني لگتي ہو۔ اگر کسي شخص کا اختلاف اس کے سامنے آۓ تو وہ اس اختلاف کو اپني استعداد کي حد تک دلائل ہي کي بنا پر رد کرے اور اس اختلاف کي حقيقت کو سمجھنے ميں اپنے ديني رہنما ہي سے مدد لے۔ ليکن اگر اسے محسوس ہو کہ اختلاف کرنے والے کي راۓ قرآن و سنت سے زيادہ قريب ہے تو اسے اختيار کرے اور اپنے گروہ کے ساتھ وابستگي کو تعصب نہ بننے دے۔ يہاں يہ بات واضح رہے کہ اپنے گروہ کي راۓ ساتھ اصرار اگر اللہ اور رسول کي اطاعت کے جذبے کے ساتھ ہو تو مطلوب ہے۔ تقليد انساني مجبوري ہے۔ اسے صرف اس وقت برا قرار دينا چاہيے جب يہ حق کے مقابلے ميں کھڑي ہو جائے اور بندہ جانتے بوجھتے حق کا انکار کر دے۔