آيت ” وجائ بالنبين والشھداء ” ميں شہدا سے مراد
سوال:
وجائ بالنبين والشھداء (الزمر39: 69) ميں شہدا کن کو کہا گيا ہے؟
جواب:
مولانا امين احسن اصلاحي کي راۓ کے مطابق اس آيت ميں شہدا کا لفظ وسيع مفہوم ميں استعمال ہوا ہے۔ وہ اپني تفسير تدبر قرآن ميں لکھتے ہيں:
ووضع الکتاب وجائ بالنبيين والشھداء وقضي بينھم بالحق وھم لا يظلمون ، يہ اسي نور رب کے ظہور کي طرف اشارہ ہے کہ جس کي جزا اور سزا سے لوگوں کو ڈرايا جا رہا ہے۔ ليکن لوگوں کي سمجھ ميں بات نہيں آ رہي ہے ، اس دن اس حقيقت سے پردہ اٹھ جائے گا۔ کتاب سامنے رکھي جاۓ گي ، کتاب سے مراد قرينہ دليل ہے کہ لوگوں کے اعمال کا دفتر ہے۔ انبيا اور گواہوں کي پيشي کا ذکر قرآن کے دوسرے مقامات ميں تفصيل سے ہے کہ اللہ تعالي انبيا عليہم السلام سے اس دن ان کي امتوں کے مقابل ميں گواہي دلواۓ گا کہ انھوں نے لوگوں کو کيا تعليم دي اور لوگوں نے اس کا کيا جواب ديا۔ سورۂ مائدہ ميں اس کي تفصيل گزر چکي ہے۔ لفظ " شھداء" ميں وسعت وعموميت ہے۔ يعني وہ لوگ بھي طلب ہوں گے جو کسي معاملے ميں گواہي دينے کي پوزيشن ميں ہوں گے خواہ وہ انسانوں ميں سے ہوں يا فرشتوں ميں سے۔ اس امت کي حيثيت چونکہ " شھداء اللہ في الارض" کي ہے اس وجہ سے اس کے مجددين اور صديقين بھي طلب ہوں گے اور ان سے پوچھا جاۓ گا کہ انھوں نے لوگوں کو کيا بتايا اور کيا سکھايا اور لوگوں نے اس کا کيا جواب ديا۔ اس عدالت و شہادت اور اس طلبي اور روبکاري کے بعد لوگوں کے درميان بالکل انصاف کے ساتھ فيصلہ کر ديا جاۓ گا اور کسي کے ساتھ ذرا بھي ناانصافي نہ کي جاۓ گي۔"
(تدبر قرآن ، ج 6 ، ص 612)