داڑھی کی شرعی حیثیت
سوال:
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور یہ بھی کہ کیا علم دین سیکھنے کے لیے داڑھی رکھنا ضروری ہے یا نہیں؟ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر اسلام کے احکامات کو عقلی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے تو وضو کا ٹوٹنا اخراج ریح کی وجہ سے ہوتا ہے تو پھر غسل ہاتھ، منہ اور پیروں کا کیوں کیا جاتا ہے؟ اس میں کیا عقلی توجیہ ہے۔ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔
جواب:
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ آپ نے داڑھی کی شرعی حیثیت اور وضو میں اعضا دھونے کی عقلی توجیہ دریافت کی ہے۔
داڑھی کا سوال آپ نے استاد محترم غامدی صاحب کے حوالے سے کیا ہے۔ انھوں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے لیکن ان کے چہرے پر بال بھی کم ہیں اور اب سفید ہونے کی وجہ سے بھی کم از کم ٹیلی ویژن سکرین پر نظر نہیں آتے۔ ان کی رائے داڑھی کے بارے میں یہ ہے کہ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے ایک حکم کی صورت میں بیان نہیں کیا۔ چنانچہ یہ دین کا اس طرح کا حکم نہیں ہے جیسے نماز اور اعتکاف وغیرہ ہیں۔
وضو کا حکم طہارت کے لیے ہے، صفائی اس کا ایک پہلو ہے۔ وضو کے اعضا کا گندا ہونا وضو میں اصلا پیش نظر نہیں ہے۔ اگر کوئی عضو گندا ہو یعنی اس پر کوئی ناپاک چیز لگی ہوئی ہے تو اسے صاف کرنا الگ سے ضروری ہے خواہ وہ وضو میں دھلتا ہو یا نہ دھلتا ہو۔ وضو حصول طہارت کا ذریعہ ہے جو جسمانی سے زیادہ قلبی کیفیت ہے۔ یہاں یہ حقیقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ دین کے اعمال کا اصل تعلق قلب کے ساتھ ہے۔ ہر عمل ہمارے قلب کی حالت کو ظاہر کرتا ہے یا ہمارے قلب کی حالت کو تبدیل کرتا ہے۔