جنازے کے مسائل
سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں عموماً یوں ہوتا ہے کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو لوگ وہاں جاتے ہیں۔ نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ اور پھر مردے کو دفن کر دینے کے بعد اس کی قبر پر پھول اور اگربتیاں جلائی جاتی ہیں۔ پھر اسی لوگ کھانا کھا کر پھر اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ شریعت میں اس سب کو جو کہ بیان کیا گیا ہے کیا جائز مانا جاتا ہے؟ اور جب ہم اپنے والد یا اور کسی عزیز کی قبر پر جاتے ہیں تو وہاں ان کے لیے قرآن کی کچھ آیات پڑھ کر اس کی نذر کر دی جاتی ہیں تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا دعا کا یہی صحیح طریقہ ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
آپ نے جنازہ اور تعزیت وغیرہ سے متعلق جو مختلف سوالات پوچھے ہیں، ان کا مختصر جواب حسب ذیل ہے:
١۔ میت کی تدفین کے بعد قبر پر پھول ڈالنا یا اگر بتی وغیرہ جلانا محض ایک رسم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔
٢۔ قبر پر اذان دینا درست نہیں۔ یہ ایک دینی نوعیت کا عمل ہے جس کے جواز کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثابت ہونا ضروری ہے۔ شرعی ثبوت کے بغیر تکفین وتدفین کی رسوم میں ایسے کسی عمل کا اضافہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔
٣۔ تعزیت کے لیے آنے والوں سب لوگوں کو کھانا کھلانا بھی محض ایک رسم ہے۔ البتہ دور سے آئے ہوئے مہمانوں کے لیے ضرورت کے تحت کھانے کا انتظام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر میت کے ایصال ثواب کے لیے کھانا کھلانا پیش نظر ہو تو اس کی نوعیت صدقہ کی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اسے کھانے والے وہ لوگ ہوں جو صدقہ کے مستحق ہیں۔ صاحب حیثیت اور مال دار لوگوں کے لیے ایسا کھانا کھانا درست نہیں۔
٤۔ تعزیت کے لیے کوئی مخصوص کلمات اختیار کرنا ضروری نہیں اور نہ ہاتھ ملا نا اس کا حصہ ہے۔ ہاں، ملتے یا رخصت ہوتے وقت اگر ملاقات کے عام آداب کے مطابق ہاتھ ملا لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ تعزیت کا مقصد پس ماندگان کو تسلی دینا اور صبر وحوصلہ اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی تلقین کرنا ہے۔ اس موقع پر انفرادی یا اجتماعی طور پر، ہاتھ اٹھا کر یا ہاتھ اٹھائے بغیر مرنے والے کے لیے مغفرت کی دعا بھی کی جا سکتی ہے۔
٥۔ اگر تلاوت کر کے یا کوئی بھی نیک عمل کر کے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی جائے کہ وہ اپنی عنایت سے اس کا ثواب مرنے والے کو پہنچا دے تو اس میں شرعاً کوئی اعتراض کی بات دکھائی نہیں دیتی۔ یہ ذہن میںرہنا چاہیے کہ ازخود اپنی طرف سے مردے کو اپنے کسی عمل کا ثواب بخشنے کا اختیار انسان کے پاس نہیں ہے۔ اس کی نوعیت اللہ کے حضور میں ایک دعا کی ہے جسے اگر وہ چاہے تو اپنی حکمت کے مطابق قبول بھی کر سکتا ہے اور رد بھی۔ البتہ اگر مرنے والے نے زندگی میں نیکی کا کوئی ایسا کام کیا ہے جس کا فائدہ اس کے مرنے کے بعد بھی مسلسل پھیل رہا ہے تو حدیث کے مطابق اس کا ثواب (کسی کے 'ایصال ثواب' کیے بغیر) خود بخود اس کے نامہ اعمال میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ یہی معاملہ نیکی کے ان کاموں کا ہے جن کی مرنے والے نے وصیت کی ہو یا وہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو لیکن زندگی میں نہ کر سکا ہو۔ اگر ورثا اس کام کو انجام دے دیں گے تو یقینی طور پر مرنے والے کو اس کا ثواب ملے گا۔
هذا ما عندی والله اعلم