مغربي جمہوريت
سوال:
آپ کے نزديک مغربي جمہوريت کے صحيح ہونے کے کيا دلائل ہيں؟
جواب:
مغربي جمہوريت کو اگر اس کے پورے تصور کے ساتھ ديکھا جائے تو اس کے حرام ہونے ميں کوئي شک ہي نہيں ہے ، کيونکہ وہ انسان کو خدا سے ہٹ کر قانون سازي کا اختيار ديتي ہے۔ اس کے نزديک انسان کثرت رائے سے اپنے ليے جس چيز کو چاہے حلال کر لے اور جس چيز کو چاہے حرام کر لے۔ اللہ تعالي کي طرف سے يہ اختيار انسان کو حاصل نہيں ہے ، چنانچہ جو فلسفہ و فکر انسان کو يہ اختيار ديتا ہے وہ سراسر باطل ہے۔ البتہ مغربي جمہوريت کا ايک پہلو جو " امرھم شوري بينھم" سے مماثل ہے اور وہ جائز ہے۔ اس اجمال کي تفصيل يہ ہے کہ ہم خدا اور اس کے رسول کي فرماں برداري ميں " امرھم شوري بينھم" کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جب اپنے معاملات طے کر رہے ہوں اور اس ميں نزاع کا کوئي موقع پيدا ہو جائے تو کيا ہمارے ليے اسي طرح کثرت رائے سے کسي نتيجے تک پہنچنا جائز نہيں ہے جيسے اہل جمہوريت اپنے نزاعات کو ووٹنگ کے ذريعے سے حل کرتے ہيں؟ ہمارے خيال ميں يہ بالکل جائز ہے۔ مثلاً قرآن و سنت کے احکام کے مطابق ذيلي قانون سازي کرتے ہوئے باہمي اختلاف کي صورت ميں ووٹنگ وغيرہ کے طريقے کو اختيار کيا جا سکتا ہے يا خليفہ اور صدر کا انتخاب ميں اسي طريقے کو اختيار کيا جا سکتا ہے۔
غامدي صاحب بھي بس اسي حد تک اور اسي پہلو سے جمہوريت کي حمايت کرتے ہيں ، ورنہ وہ اس کے ابطال ميں کسي سے پيچھے نہيں ہيں۔ دين نے جس طرز حکومت کي طرف ہماري رہنمائي کي ہے اسے غامدي صاحب نے اپني کتاب ميزان کے باب " قانون سياست" ميں ' نظم حکومت' کے عنوان کے تحت بيان کر ديا ہے ، آپ اسے وہاں ديکھ سکتے ہيں۔ اس ميں ان شاء اللہ آپ کو مغربي جمہوريت کا کوئي شائبہ بھي دکھائي نہ دے گا۔