میلاد منانا
سوال:
اسلام میں میلاد منانے کی کیا حیثیت ہے؟
جواب:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری یقینی طورپر انسانیت کے لیے اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑا انعام ہے اور ایک سچے مسلمان کے دل میں اس پرخوشی اور احسان مندی کے جذبات کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے، تاہم اس میں یہ پہلو نظر انداز نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اس موقع کو کسی باقاعدہ تہوار کے طور پر منانا مسلمانوں کے لیے مشروع نہیں کیا اور نہ اس کی ترغیب دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کا جو دور مسلمانوں کے لیے عملی طورپر ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہے، اس میں ایسے کسی طریقے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانے کا تصور اور طریقہ اسلام کی خالص تعلیمات کے لیے ایک اجنبی تصور ہے۔ مسلمانوں میں بنیادی طور پر اس کا آغاز بعض غیر مسلم اقوام کی دیکھا دیکھی ہوا جن کے ہاں اپنے مذہبی راہ نماؤں کی ولادت یا وفات کے ایام کو بطور یادگار منانے کا رواج تھا۔
دین اور شریعت کی پیروی کا اہم ترین معیار یہ ہے کہ مسلمان ان حدود وقیود اور ترجیحات کے پابند رہیں جو کسی بھی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول نے ان کے لیے پسند کی ہیں ۔ قرآن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور عقیدت کے اظہار کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ آپ پر درود اور سلام بھیجا جائے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیدائش کے دن شکرانے کے طورپر روزہ رکھا کرتے تھے۔ کوئی شخص چاہے تو آپ کی اتباع میں شخصی طور پر یہ بھی کر سکتا ہے۔ آپ کے ساتھ عقیدت ومحبت کا سب سے بڑا عملی ثبوت آپ کی تعلیمات کی پیروی کرنا اور آپ کے اوصاف واخلاق کو اپنانا اور انسانوں کے مابین ان کو عام کرنے کے لیے اپنی بساط کی حد تک کوشش کرنا ہے۔ یہ سب طریقے خود دین کے سکھائے ہوئے ہیں اور اسلام کے نقطہ نظر سے عقیدت ومحبت کے اثبات کے لیے کافی ووافی ہیں ۔ ان سے ہٹ کر کسی ایسے طریقے کو محبت کا معیار مان لینا جو دین میں ثابت نہیں ، اس بات کی علامت ہے کہ مسلمانوں کی ترجیحات کا سرچشمہ خود پیغمبر کی تعلیمات نہیں رہیں ، خاص طو رپر اس صورت میں جب دین کے اصل مطالبات مثلاً نماز، نیک اعمال اور قرآن مجید کا فہم حاصل کرنا بالکل نظر انداز ہو جائیں اور ظاہری رسوم اور تہواروں کو دینی وابستگی کے حوالے سے بنیادی اہمیت حاصل ہو جائے۔ دینی نوعیت رکھنے والے اعمال کے مشروع یا غیر مشروع ہونے کے بارے میں وہ بنیادی اصول ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے جسے اما م ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
ان القراء ة لايصل اهداء ثوابها الی الموتی لانه ليس من عملهم ولا کسبهم ولهذا لم يندب اليه رسول الله صلی الله عليه وسلم امته ولا حثهم عليه ولا ارشدهم اليه بنص ولا ایماء ة ولم ينقل ذلك عن احد من الصحابة رضی الله عنهم ولو کان خيرا لسبقونا اليه وباب القربات يقتصر فيه علی النصوص ولا يتصرف فيه بانواع الاقيسة والآراء (تفسير ابن کثير ٤/٢٥٩)
''قرآن پڑھ کر اس کا ثواب ہدیہ کرنے سے مرنے والوں کو ثواب نہیں پہنچتا، کیونکہ یہ ان کا اپنا عمل نہیں ہے (جبکہ ثواب اپنے ہی عمل کا ملتا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نہ اس کی ترغیب دی، نہ اس پر ابھارا اور نہ صراحتاً یا اشارۃً اس کی طرف ان کی راہ نمائی کی۔ صحابہ میں سے بھی کسی سے یہ طریقہ منقول نہیں، حالانکہ اگر یہ کوئی نیکی کا کام ہوتا تو سب سے پہلے صحابہ ہی اس کو کرتے۔ نیک کاموں میں اللہ یا اس کے رسول کی تصریحات تک محدود رہنا چاہیے اور اس معاملے میں طرح طرح کے قیاسات اور آرا کو دخل نہیں دینا چاہیے۔''
هذا ما عندی والعلم عند الله۔