رحمۃ للعالمین
سوال:
سورہ انبیاء کی آیت ''وما ارسلناک الا رحمة للعالمین'' کا وہ ترجمہ جو عزت مآب غامدی صاحب کرتے ہیں ، لکھ دیجیے۔اور اگر وہ حضور کو رحمت تصور کرتے ہیں تو ہم درود اور تشہد میں اُن پر رحمت بھیجنے کی دعا کیوں مانگتے ہیں ؟
جواب:
اِس آیت کے بارے میں غامدی صاحب کا ترجمہ تو مجھے میسر نہیں ہوسکا۔تاہم اُن کے اُستاذ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر''تدبر قرآن'' میں اِس کا ترجمہ یوں کیا ہے : ''اور ہم نے تم کو تو بس اہل عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے''۔ پھر اِس کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں :'' یعنی اِسی انذار وبشارت کے لیے ہم نے تمہیں لوگوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے کہ اُن کو اِس حقیقت سے آگاہ کردو۔تمہارے اوپر ذمہ داری صرف ابلاغ اور منادی کی ہے ،تم یہ فرض ادا کرو۔اگر مغرور اور سرکش لوگ تمہارے انذار کا مذاق اُڑاتے اور اِس وقت موعود کے دکھا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں تو تم اُن سے کہہ دو کہ مجھے خدا نے رحمت بنا کر بھیجا ہے،عذاب بنا کر نہیں بھیجا ہے۔میں نہیں جانتا کہ عذاب کب آئے گا۔اِس کے وقت کا علم صرف میرے رب ہی کو ہے''۔(تدبر قرآن5-189-199)
اِس کے معنی یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فريضہ منصبی کہ وہ اپنے پروردگار کی آسمانی ہدایت کو لوگوں تک پہچاتے ،منکرین کو آخرت کے سنگین نتائج سے ڈراتے اور مومنین کو وہاں اچھے انجام کی بشارت دیتے ہیںتو اُن کی یہ حیثیت در حقیقت لوگوں کے لیے سراسر رحمت ہی رحمت ہے ۔لوگ چاہیں تو اِس دعوت حق کو مان کر اللہ کی اِس رحمت اور عنایت سے فائدہ اُٹھائیں اور چاہیں تو اِس سے بے نیاز ہوجائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تو بس یہی ہے کہ اِس عنایت کو لوگوں تک بے کم وکاست پہنچاکراُن کے لیے اللہ کی رحمت کا ذریعہ بن جائیں۔منکرین کا عذاب اور اُن کا انجام البتہ، اُن کے پروردگار کے ذمہ ہے۔آپ گویا دنیا کے لیے پروردگار عالم کی رحمت کا ذریعہ ہیں۔
جہان تک تشہد اور درور میں آپ صلی علیہ وسلم پر رحمت بھیجنے کا تعلق ہے تو یہ بات واضح رہے کہ اِس طرح کی دعاؤں میں لفظ'رحمت' اپنے اصل اور عمومی مفہوم میں آتا ہے۔یعنی اِن میں ہم اللہ تعالیٰ سے محض یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار!تومحمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا رحم اور کرم فرما۔چنانچہ دونوں باتوں کا فرق بالکل واضح ہے۔