شتمِ رسول کا مسئلہ——فقہاے اُمت کی نظر میں
سوال:
عام طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ مسلمان ریاست میں کوئی شخص جو مسلمان شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرتا ہے؛وہ اگر گستاخیٔ رسول کا علانیہ کا ارتکاب کرے تو تمام فقہاے اُمت کے مابین اِس پر اتفاق ہے کہ ایسے شخص کے لیے خاص اِس جرم کی شرعی سزا (حَدّ) قتل ہے ۔ علمِ اسلامی کی رو سے کیا یہ بات درست ہے؟
جواب:
مصادرِ فقہ اسلامی کی تحقیقی مراجعت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ فقہا کے ایک گروہ کی یہی رائے ہے،تاہم فقہاے اُمت کی نسبت سے اِس رائے پر اجماع کا دعوی قطعاً درست نہیں ہے ۔ اِستقصا سے معلوم ہوتا ہے کہ علماے اُمت کے مابین اِس مسئلے میں نزاع ہے ۔ اِس معاملے میں اُن کے ہاں مندرجہ ذیل دو آرا پائی جاتی ہیں :
ایک یہ کہ ایسے مجرم کو،خواہ وہ مرد ہو یا عورت،خاص اِس جرم کی شرعی حَدّ کے طور پر قتل کیا جائے گا ۔
مشہور روایت کے مطابق یہ إمام مالک اور اُن کے شاگردوں،إمام أحمد،لیث بن سعد اور اسحاق بن راہویہ کا نقطۂ نظر ہے(1)۔
دوسری رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے اِس جرم کا ارتکاب کر کے ایسا شخص درحقیقت رسالت پر عدم ایمان کا اعلان کرتا اور
اِس کے نتیجے میں در اصل دائرۂ اسلام سے خارج اور مرتد ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ اُسے بر بنائے ارتداد سزاے موت دی جائے گی،نہ کہ بر بنائے توہینِ رسالت اُس کی حَدّ شرعی کے طور پر ۔
یہ نقطۂ نظر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ،إمام أبوحنیفہ،اُن کے شاگردوں،إمام ثوری،إمام اوزاعی اور اہل کوفہ کا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق إمام مالک رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے(2)۔
إمام أبو یوسف رحمہ اللہ (متوفی:183 ھ) "کتاب الخراج" میں فرماتے ہیں :
أيما رجل مسلم سب رسول الله صلى الله عليه وسلم أو كذَّبه أو عابه أوتنقصه فقد كفر بالله وبانت منه زوجته ، فإن تاب وإلا قتل ، وكذلك المرأة ، إلا أن أبا حنيفة قال: لا تقتل المرأة (3).
''جس مسلمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب وشتم کیا ، اُن کی تکذیب کی یا وہ اُن کی عیب جوئی یا تنقیص کا مرتکب ہوا تو بلا شبہ اُس نے کفر کیا (اور اِس طرح وہ مرتد ہوگیا) ۔ اور اِس (ارتداد) کے نتیجے مین اُس کی بیوی بھی اُس کے عقدِ نکاح سے نکل گئی ۔ پھر اگر وہ (اپنے اِس جرم سے) توبہ کرلے(اور دائرۂ اسلام میں دوبارہ داخل ہوجائے) تب تو اُس کے لیے معافی ہے،ورنہ دوسری صورت میں اُسے قتل کردیا جائے گا ۔ اِس طرح کے جرم کا ارتکاب اگر کوئی خاتون کرے تو اُس کا حکم بھی یہی ہے ۔ تاہم یہ واضح رہے کہ إمام أبو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا''۔
ائمہ حنفیہ کا اِس پر مزید کہنا یہ ہے کہ قتل کی یہ سزا اگر خاص گستاخی رسول کی حَدِّ شرعی ہوتی تو پھر اِس جرم کے مرتکب غیر مسلم شہری کو بھی سزاے موت ہی دی جاتی ۔ جبکہ اُس کی سزا ائمہ حنفیہ کے نزدیک،جیسا کہ آگے واضح ہوگا،قتل نہیں بلکہ ''تادیب وتعزیر'' ہے ۔
مزید یہ کہ بعض احادیث و آثار کی بنیاد پر امام حسن بصری،إمام نخعی،إمام أبوحنیفہ اور اُن کے بعض شاگردوں کی رائے یہ ہے کہ ارتداد اگر کسی خاتون سے ہوا ہے تو اُسے قید کیا جائے گا؛اسلام کی دعوت دی جائے گی اور اُسے اسلام پر مجبور کیا جائے گا ۔ خواتین اِس معاملے میں سزائے موت سے مستثنٰی ہیں ۔ اُنہیں بہر حال قتل نہیں کیا جائے گا ۔ یہی رائے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے(4)۔
(1) الصارم المسلول علی شاتم الرسول،الإمام ابن تيمية/ص:260۔ دار ابن حزم،بيروت ۔ طبعۂ اُولٰی:1417ھ۔ السيف المسلول علی من سب الرسول،الإمام السبکی،ص:156۔دار الفتح،عمان،الأردن ۔ طبعهٔ اولٰی:1421ھ۔ مجموعة رسائل ابن عابدين،علامه امين بن عابدين شامی،320/1۔مطبعة در سعادت ۔ الإستانة،الترکية ۔ طُبع علی ذمة محمد هاشم الکبتی ۔1325ھ۔
(2) الصارم المسلول علی شاتم الرسول،الإمام ابن تيمية/ص:334،320۔ دار ابن حزم،بيروت ۔ طبعهٔ اُولٰی:1417ھ۔ زاد المعاد فی هدی خير العباد ۔ الإمام ابن القيم ۔54/5۔ عون المعبود شرح سنن أبی داود ، أبو الطيب محمد شمس الحق العظيم آبادی 12/12۔ المفصل فی شرح حديث ''من بدل دينه فاقتلوه'' علی بن نايف الشحود، 397/2۔ السيف المسلول علی من سب الرسول،الإمام السبکی،ص154۔155۔ دار الفتح،عمان،الأردن ۔ طبعهٔ اولٰی:1421ھ۔ مجموعة رسائل ابن عابدين،علامه امين بن عابدين شامی،320/1۔مطبعة در سعادت ۔ الإستانة،الترکية ۔ طُبع علی ذمة محمد هاشم الکبتی ۔1325ھ۔
(3) ص:182۔ المطبعة السلفية،القاهرة . الطبعةالثالثة ، عام 1382هـ ۔
(4) مسند أبی حنيفة (رواية أبی نعيم)،رقم الحديث :260 ،190/1 مکتبة الکوثر،رياض ۔ طبعهٔ اُولٰی ۔ مصنف ابن ابی شيبة،رقم الحديث : 28407،32127،35814۔مکتبة الرشد،الرياض ۔ طبعهٔ اُولٰی:2004 م ۔ کتاب الخراج،إمام أبو يوسف،ص:180۔181۔الشفا بتعريف حقوق المصطفٰی بتحقيق الشيخ علی محمد البجاوی،القاضی عياض،1024/2۔ دار الکتاب العربی،بيروت ۔1404ھ۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول،الإمام ابن تيمية/ص:260۔ دار ابن حزم،بيروت ۔ طبعهٔ اُولٰی:1417ھ۔ عون المعبود شرح سنن أبی داود،أبو الطيب محمد شمس الحق العظيم آبادی،12/12۔ مجموعة رسائل ابن عابدين،علامہ امين بن عابدين شامی،319/1 ،322۔ مطبعة در سعادت ۔ الإستانۃ،الترکية ۔ طُبع علی ذمة محمد هاشم الکبتی ۔1325ھ۔