سورۂ ص کی آیہ کریمہ٤٤
سوال:
حیلہ شرعی جس کو فقہا نے سورہ ص کی آیہ کریمہ٤٤ سے استنباط کیا ہے ، اس پر کچھ روشنی ڈالیے۔ مزید برآں اصلاحی صاحب اس آیت کے ذیل میں اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: دین میں اسی چیز کا اہتمام ہے۔ اگر کسی حکم کی تعمیل اس کی اصل صورت میں متعذر ہو تو اس کی تعمیل شبہی صورت میں ضرور کی جائے تاکہ اس کی یاد قائم رہے۔ اس اصل پر تفریع کرتے ہوئے کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ امامت، اذان، تعزیت اور تسلیت، تراویح اور قرآن خوانی، چونکہ اصل شکل میں تقریبا متعذر ہے۔ پس باید آنکہ شبہی صورت میں بجالایا جائے جو آجکل مروج ہے۔ اس صورت میں بدعت اضافی چہ معنی دارد؟
جواب:
آپ کی تفریع سمجھ میں نہیں آئی۔ عذر کی صورت میں شرعی فرائض میں رخصت کی صورتیں واضح ہیں۔ امامت جہاں حاکم موجود نہ ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی دوسرے حضرات جماعت کی امامت کراتے تھے۔ اذان بعینہ دی جاری ہے۔ تعزیت کی دینی صورت میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ تراویح یعنی سحری کی نماز تہجد کو عشاء کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ دین میں بدعت صرف اس وقت وجود میں آتی ہے جب کوئی نیا دینی عمل رائج کیا جائے۔