تحفظِ حقوقِ نسواں بل
سوال:
حکومت نے حال ہی میں ''تحفظ حقوق نسواں'' بل پاس کیا ہے۔اس کے بارے میں بعض علما کا یہ کہنا ہے کہ اس بل کے نتیجے میں ملک میں جنسی آزادی جنم لے گی۔ اس میں آخر ایسی کیا غلطی ہے، جس کی بنا پر وہ ایسا کہہ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس سے پہلے عورتوں کے حق میں قانون انصاف پر مبنی نہیں تھا اور اس سے انھیں تحفظ ملا ہے۔
جواب:
جن لوگوں نے ''تحفظ حقوق نسواں'' بل پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ جنسی آزادی کا باعث بنے گا، انھوں نے اس پر درج ذیل اعتراضات کیے ہیں:
پہلا یہ کہ زنا بالجبر کی جو سزا قرآن و سنت نے بیان کی ہے اور جسے اصطلاح میں حد کہتے ہیں، اسے اس بل میں مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے، اس کی رو سے زنا بالجبر کے کسی مجرم کو کسی بھی حالت میں شرعی سزا نہیں دی جا سکتی، بلکہ اسے ہر حال میں تعزیری سزا دی جائے گی۔
دوسرا یہ کہ حدود آرڈی نینس میں جس جرم زنا کو موجب تعزیر کہا گیا تھا، اسے اس بل میں فحاشی (Lewdness) کا نام دے کر اس کی سزا کم کر دی گئی ہے اور اس کے ثبوت کو مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ثبوت کو مشکل تر بنانے کی وضاحت یہ ہے کہ اب زنا کے حوالے سے پولیس کوئی اقدام ہی تب کرے گی جب اسے دو گواہ میسر ہوں گے۔ نیز اس بل کے مطابق سولہ سال سے کم عمر خاتون، خواہ وہ حقیقتاً بالغ ہی کیوں نہ ہو، اس کے ساتھ اگر اس کی رضامندی کے بغیر یا رضا مندی کے ساتھ زنا کیا گیا ہے تو ہر دو صورتوں میں مرد کو زنا بالجبر کا مرتکب قرار دیا جائے گا اور اس خاتون کو بری قرار دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس بل میں اور بھی بعض ایسے مسائل موجود ہیں جو جرم زنا کے خلاف قانون کو سست اور کمزور بناتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس بل میں موجود یہ پہلو تشویش ناک ہیں۔