بچوں کو موت کیوں آتی ہے؟ بعض انسانوں کو آزمائش سے مستثنیٰ کیوں رکھا جاتا ہے؟
سوال:
السلام علیکم۔
جواب:
و علیکم السلام
آپ کے سوال کے لیے شکریہ-
قرآن مجید ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ اس دنیا میں آنے سے پہلے اور یہاں آزمائش میں سے گزرنے سے پہلے الله تعالی نے تمام مخلوقات کے سامنے ارادے اور اختیار کی امانت پیش کی- زمین و آسمان اور پہاڑوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا- لیکن انسان نے اسے اٹھایا-
قرآن میں ہے
اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا
اطاعت کا یہ تقاضا اُس ارادہ و اختیار کی بنا پر کیا جاتا ہے جو ہم نے انسان کو عطا فرمایا ہے)- ہم نے یہ امانت زمین اور آسمانوں اور پہاڑو ں کے سامنے پیش کی تھی تو اُنھوں نے اُس کو اٹھانے سے انکار کر دیا تھا اور اُس سے ڈر گئے تھے، مگر انسان نے اُس کو اٹھا لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی ظالم اور جذبات سے مغلوب ہو جانے والا ہے۔ (سورہ احزاب آیت 72 - ترجمہ از جاوید احمد غامدی )
ارادہ و اختیار کی اس امانت کو اٹھانے کا مطلب عہد و میثاق کا پابند ہونا ہے جس کے بعد آزمائش سے گزرنا ہوتا ہے- آزمائش سے گزرنے کا انجام انسان کو پہلے سے معلوم تھا- کامیابی کی صورت میں ابدی جنّت کا اور ناکامی کی صورت میں سزا کا مستحق ہونا- انسان کی نگاہیں کامیابی کے انجام، یعنی جنت کی ابدی زندگی دیکھ کراس قدر خیرہ ہو گئیں کہ اس نے ارادہ و اختیار کی امانت کو قبول کر لیا- اسی وجہ سے اللہ تعالی نے اس پر تبصرہ فرمایا
اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا
حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی ظالم اور جذبات سے مغلوب ہو جانے والا ہے۔
یہ انسان کی فطرت کا بیان ہے جس کی بنا پر اُس نے یہ بار امانت اٹھایا ہے۔ چنانچہ انسان کے سامنے اگر اُس کی کوئی محبوب چیز پیش کی جائے، جیسے علم، حسن، اقتدار، ابدیت، عزوجاہ اور مال و دولت وغیرہ تو اُس کے لیے بسا اوقات وہ ایسا ازخود رفتہ ہو جاتا ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتا اور اِس طرح اپنی جان پر ظلم کرتا ہے۔ آیت میں ’ظَلُوْمًا جَہُوْلًا‘ کے الفاظ اِسی لحاظ سے استعمال ہوئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ارادہ و اختیار جیسی چیز جو خدا کی صفات میں سے ہے، جب انسان کے سامنے پیش کی گئی تو نتائج و عواقب کی پروا کیے بغیر اُس نے لپک کر اُسے قبول کرلیا، اِس لیے کہ اُس کی فطرت میں یہ چیز ودیعت ہے کہ کسی چیز کی کشش اُسے دیوانہ بنا سکتی ہے اور اُس کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جان پر اُس کو ظلم بھی کرنا پڑے تو وہ کر گزرتا ہے۔
اب اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں نے ارادہ و اختیار کی امانت قبول کر کے خود کے امتحان کا اہل بنا دیا اور امتحان کا تقاضہ ہے کہ ہر فرد کے ساتھ معاملہ مختلف ہو- اس میں ایک unpredictability کا عنصربھی آ جاتا ہے کہ کسی کی موت بچبن میں، کسی کے لڑکپن میں، کسی کی درمیانی عمر میں اور کسی کی بڑھاپے میں ہو جاتی ہے- کسی کو ایک طویل عمر ملنے باوجود وہ ذہنی استعداد ہی نہیں ملتی جس سے وہ خیر و شر کا انتخاب کر سکے- یہی unpredictability اور diversity اس امتحان کو معنی خیز بناتی ہے اور یہ چیز پہلے سے انسان کے علم میں تھی- اب جو بچے بلوغت سے پہلے یا پیدا ہوتے ہی فوت ہو جاتے ہیں ان کے دنیا اور آخرت کے حوالے سے متعدد مقاصد ہو سکتے ہیں- ایک مقصد تو قرآن نے خود بیان فرمایا ہے:
وَ یَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ ۚ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ حَسِبۡتَہُمۡ لُؤۡلُؤًا مَّنۡثُوۡرًا
اہل جنت کی خدمت میں وہ لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، دوڑتے پھرتے ہوں گے۔ تم اُن کو دیکھو گے تو یہی خیال کرو گے کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں- (سورہ دہر- آیت ١٩)
بچوں کا وجود بھی اس دنیا کی ایک نعمت ہے اور اس نعمت سے بھی اہل جنت کو محروم نہیں رکھا جاۓ گا- جو بچے صغر سنی میں وفات پا جاتے ہیں وہ جنت میں اس مقصد کی تکمیل کریں گے- لہٰذا، اصلاً تو بچوں کی وفات اس دنیا میں برپا امتحان کی unpredictability کا ایک لازمی نتیجہ ہے لیکن کون سا بچہ کس وقت وفات پاۓ گا یہ چیز اللہ تعالی کی حکمت سے طے پاتی ہے-
و الله اعلم